صدر زرداری کو علاج کے لیے دبئی جانے سے کیوں روکا گیا؟ فرحت اللہ بابر کی کتاب میں سنسنی خیز انکشافات
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) — سابق سینیٹر اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب "دی زرداری پریزیڈنسی" میں 2011 کے میموگیٹ اسکینڈل کے بعد پیدا ہونے والی سنگین سیاسی کشیدگی اور صدر زرداری کی صحت سے متعلق اہم واقعات کا انکشاف کیا ہے۔
کتاب کے مطابق، جب میموگیٹ اسکینڈل منظر عام پر آیا تو ریاستی اداروں کے درمیان تناؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا، جس کے نتیجے میں صدر زرداری شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے دبئی جانے کے لیے پُرعزم تھے، حتیٰ کہ مسلح ہو کر روانگی کی تیاری بھی کر لی گئی، لیکن انہیں ملک سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
زرداری کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشِ نظر، فوری طور پر آذربائیجان سے ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم حسین کو پاکستان بلایا گیا۔ صدر نے ملٹری اسپتال میں علاج سے انکار کرتے ہوئے صرف دو آپشن رکھے: کراچی یا دبئی۔ اس معاملے پر انہوں نے فیصلہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پر چھوڑ دیا، جنہوں نے دبئی کو ترجیح دی۔ تاہم، ڈاکٹرز نے فضائی سفر سے منع کر دیا، اور ڈاکٹر عاصم نے کراچی میں اپنا ذاتی اسپتال تجویز کیا۔
معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب صدر زرداری نے شرط عائد کی کہ وہ پاکستان کے اُس وقت کے سفیر حسین حقانی کو ساتھ لیے بغیر ملک سے نہیں جائیں گے۔ ان کا خدشہ تھا کہ اگر حقانی پیچھے رہ گئے تو اُن پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور انہیں ریاست کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، میموگیٹ کا اصل ہدف خود زرداری تھے، نہ کہ حسین حقانی۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس فیصلے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر صدر اور سفیر دونوں ملک سے باہر چلے گئے تو اسے سیاسی فرار قرار دیا جائے گا۔ ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر زرداری ملک میں ہی ٹیسٹ کراتے ہیں تو عدلیہ ان نتائج کی بنیاد پر ان کی نااہلی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق، زرداری کو حقانی کے بغیر سفر پر آمادہ کرنا تقریباً ناممکن تھا، خاص طور پر جب عدالت کے حکم پر حسین حقانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر صدر کو بے ہوش کر کے ہیلی کاپٹر تک لے جانے کی تجویز بھی زیرِ غور آئی، تاہم اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
روانگی کے وقت ہیلی کاپٹر گھنٹوں رکا رہا کیونکہ صدر نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ حسین حقانی کے بغیر نہیں جائیں گے۔ وزیر اعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ حقانی کو وزیر اعظم ہاؤس میں مکمل تحفظ دیا جائے گا، مگر زرداری اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
بالآخر جب دونوں ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے تو پائلٹ نے آگاہ کیا کہ دبئی سے لینڈنگ کی اجازت ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ ایک مشیر نے تجویز دی کہ پرواز کو کراچی موڑ دیا جائے، لیکن زرداری نے سختی سے کہا:
"میں 30 گھنٹے انتظار کر لوں گا، مگر کراچی نہیں جاؤں گا!"
یہ واقعہ صرف سیاسی کشمکش کا عکس نہیں بلکہ ایک ایسے صدر کے عزم، خدشات اور سیاسی بصیرت کی جھلک بھی پیش کرتا ہے، جو مشکل ترین حالات میں بھی اپنے فیصلوں پر قائم رہا۔