رمشا ہمیشہ چپ رہتی تھی۔
نہ زیادہ ہنستی، نہ زیادہ بولتی — بس خاموش سی، گم سم۔
اس کے دفتر میں سب اُسے خاموش لڑکی کہتے،
لیکن تیمور…
وہ اُس خاموشی کو روز سنا کرتا تھا۔
جب وہ دفتری میٹنگ میں نظریں جھکا لیتی،
جب وہ کھڑکی کے پاس کافی کا کپ لے کر تنہا کھڑی ہوتی،
اور جب کوئی اُس سے مزاح کرتا اور وہ صرف ہلکا سا مسکرا دیتی —
تیمور اُس کی آنکھوں میں چھپے لفظوں کو سمجھنے لگا تھا۔
ایک دن تیمور نے اُس کے ڈیسک پر ایک پرچی رکھی:
"کبھی کبھی خاموشی… سب کچھ کہہ جاتی ہے۔ تم اگر چاہو، تو میں سننے کو تیار ہوں۔"
رمشا نے پرچی پڑھی، لیکن کوئی جواب نہ دیا۔
تیمور کو لگا شاید اُس نے حد پار کی…
لیکن اگلی صبح، رمشا نے بھی ایک پرچی چھوڑ دی:
"کچھ باتیں لفظوں میں نہیں آتیں… تم اگر سمجھتے ہو، تو چپ رہ کر ساتھ دے دینا۔"
یہ کوئی فلمی رومانس نہ تھا۔
نہ پھول، نہ ڈیٹ، نہ سوشل میڈیا پر محبت کے چرچے۔
بس روزانہ کی خاموش نظریں، ایک دوسرے کی موجودگی،
اور چائے کے دو کپ جو اکثر تیمور خاموشی سے اُس کے ڈیسک پر رکھ جاتا۔
رفتہ رفتہ، وہ خاموشی ایک سکون میں بدل گئی۔
رمشا نے تیمور کو اپنی زندگی کی سب سے تلخ بات بتائی:
"میرے والدین کی تلخ طلاق نے میرے اندر کے لفظ مار دیے تھے… اب صرف چپ ہی میرا دفاع ہے۔"
تیمور نے صرف اتنا کہا:
"میں تمہاری خاموشی کا محافظ بننا چاہتا ہوں، اس سے لڑنے والا نہیں۔"
رمشا نے پہلی بار تیمور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا،
اور وہ لمحہ… شاید ان دونوں کے بیچ سب سے زیادہ بولنے والا تھا۔
کچھ مہینے بعد، خاموشی کی زباں نے ایک اور جملہ کہا —
"قبول ہے"۔
شادی سادگی سے ہوئی،
نہ بینڈ، نہ بڑی تقریبات… بس دو لوگ، جو ایک دوسرے کو لفظوں سے نہیں، احساس سے سمجھے تھے۔
اب تیمور اکثر رمشا سے کہتا ہے:
"تم کچھ مت بولو… تمہاری خاموشی میں مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت کہانی سنائی دیتی ہے۔"
– "سچی محبت ہمیشہ شور نہیں کرتی… بعض اوقات، وہ خاموشی میں دل چُھو جاتی ہے۔"