چین کا پاکستان کو جدید J-35A فائٹر طیارے فراہم کرنے کا اعلان
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) — حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور پاکستانی پائلٹس کی عالمی سطح پر کارکردگی کے اعتراف کے بعد چین نے پاکستان کو اپنے جدید ترین ففتھ جنریشن اسٹیلتھ فائٹر جیٹ J-35A فراہم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان طیاروں کی ابتدائی کھیپ 2026 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان پہنچنے کی توقع ہے۔
شینیانگ ایئرکرافٹ کارپوریشن نے J-35A کی ڈیلیوری کا شیڈول چھ ماہ پہلے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے خطے کے سیکیورٹی حالات کے تناظر میں ایک اہم حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس پیش رفت کا بنیادی مقصد پاکستان کی فضائی دفاعی صلاحیت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
اگرچہ اب تک نہ پاکستان اور نہ ہی چین کی جانب سے سرکاری تصدیق سامنے آئی ہے، مگر اطلاعات کے مطابق پاکستان نے 40 J-35A طیاروں کی خریداری کا منصوبہ ترتیب دیا ہے، جو اس جدید جیٹ کی پہلی بین الاقوامی برآمد شمار ہو گی۔
یہ معاہدہ اس وقت منظر عام پر آیا جب چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے نائب چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے پاکستان کا دورہ کیا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔ قبل ازیں، اپریل میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے بھی بیجنگ کا دورہ کیا، جہاں چینی وزیر دفاع سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔
J-35A کی فراہمی اگر مقررہ شیڈول کے مطابق ہوتی ہے تو یہ بھارتی فضائیہ کے Su-30MKI اور رافیل طیاروں کے مقابلے میں پاکستان کو فضائی برتری میں ایک واضح برتری فراہم کر سکتی ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس پہلے ہی J-35A پر تربیت کے لیے چین بھیجے جا چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اس طیارے کو جلد از جلد آپریشنل بنانا چاہتا ہے۔
J-35A ایک دو انجن والا، جدید اسٹیلتھ فائٹر ہے جو ایڈوانسڈ ایویونکس، AESA ریڈار، ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے، اور نیٹ ورک سینٹرک جنگی ماحول میں مؤثر کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا V-شکل دم اور ریڈار جذب کرنے والا ڈھانچہ اسے دشمن کے ریڈار سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ طیارہ PL-17 جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو سکتا ہے، اور تکنیکی طور پر امریکی F-35 کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ J-35 کیریئر ویریئنٹ کو چینی نیوی کے طیارہ بردار جہازوں کے لیے تیار کیا گیا ہے، جو اس کی کثیر المقاصد افادیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کا یہ قدم نہ صرف تکنیکی ترقی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ بیجنگ اور اسلام آباد کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کی بھی عکاسی کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
