پاکستان کو نشانہ بنانے والے افغان عناصر کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا آغاز

Express Zameen

 


کابل (این این آئی) – افغانستان میں طالبان حکومت نے پہلی بار اُن افغان شہریوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے جو پاکستان کو نشانہ بنانے میں ملوث تھے۔ اس اہم پیشرفت کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، گزشتہ ایک ماہ کے دوران دنیا کی توجہ زیادہ تر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر مرکوز رہی، لیکن اس دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان پس پردہ اہم سفارتی سرگرمیاں جاری رہیں تاکہ دوطرفہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔

پاکستانی حکام کو طالبان حکومت کے مؤقف میں واضح تبدیلی اُس وقت محسوس ہوئی جب مارچ کے تیسرے ہفتے میں پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، محمد صادق خان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے کابل کا دورہ کیا۔ وفد کو افغان حکام نے سرحد پار دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔

اندرونی ذرائع کے مطابق، طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے محسوس کیا کہ طالبان حکومت اس کے سکیورٹی خدشات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ اب اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ افغان طالبان نے اُن افراد کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے یا تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت اختیار کی یا اس میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ذرائع کے مطابق، ایسے متعدد افغان شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا گیا ہے جو ٹی ٹی پی کے لیے بھرتیاں کر رہے تھے۔ پاکستان کے بارہا احتجاج کے بعد افغان طالبان نے بالآخر ان عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی، جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں خودکش حملوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، اور اسی پیشرفت کے نتیجے میں 19 اپریل کو وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل بھی ممکن ہوا۔

یہ گزشتہ تین سالوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا کابل کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کے دوران افغان حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے افغان درآمد کنندگان کے لیے بینک گارنٹی کی شرط ختم کی اور تجارت پر عائد کچھ پابندیاں بھی ہٹا دیں۔

طالبان حکومت نے پاکستان کا اعتماد اس وقت مزید حاصل کیا جب اس نے ان افغان شہریوں کے خلاف کارروائی کی، جنہوں نے پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 70 سے زائد دہشت گردوں کو سہولت فراہم کی تھی۔

ایک پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس پیشرفت کو مثبت قرار دیا اور کہا، "یہ ایک اچھا آغاز ہے، ہمیں امید ہے کہ افغان طالبان اسی راستے پر گامزن رہیں گے۔"

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !