رمشا نے دروازہ کھولا، اور پوسٹ مین ایک چھوٹا سا پیکٹ تھما گیا۔
یہ تیسرا مہینہ تھا…
علی دبئی جا چکا تھا، روزگار کے لیے۔
اور ہر مہینے، وقت پر، اُس کا ایک چھوٹا سا پیکٹ پاکستان پہنچتا — رمشا کے نام۔
پیکٹ ہمیشہ سادہ ہوتا، لیکن اندر جذبات کا ایک سمندر چھپا ہوتا۔
پہلے پیکٹ میں ایک چھوٹا سا خوشبو والا رومال تھا،
دوسرے میں رمشا کے پسندیدہ چاکلیٹس اور ایک چھوٹی سی دعا لکھی ہوئی:
"تمہیں ہر لمحہ یاد رکھنا… میری عبادت جیسا ہے۔"
رمشا روز شام کو اُس پیکٹ کو تھام کر بیٹھتی،
علی کی بھیجی ہوئی خوشبو کو سونگھتی،
اور یادوں کی گلی میں قدم رکھتی۔
فون پر علی کہتا:
"یہ پیکٹس میری محبت کی قسطیں ہیں… جب تک واپس نہ آ جاؤں، بس یوں دل لگا لینا۔"
رمشا ہنس دیتی،
مگر آنکھوں میں نمی چھپ جاتی۔
علی صبح سے رات تک کام کرتا، خود کی نیند، خوراک، سب قربان کرتا،
مگر پیکٹ بھیجنے میں تاخیر نہ ہوتی۔
پھر ایک دن، رمشا کے دروازے پر دوبارہ وہی پوسٹ مین آیا —
لیکن اس بار پیکٹ معمول سے کچھ بڑا تھا۔
رمشا نے کھولا تو اندر چھوٹے بچوں کا جوتا تھا…
ساتھ میں خط:
"میرے لیے دعا کرنا، اب صرف تمہاری حفاظت نہیں، ہمارے بچے کی زندگی بھی میرے خوابوں میں ہے…!"
رمشا کے ہاتھ کانپ گئے،
ایک پل کو لگا جیسے پورا آسمان اُس کے ہاتھوں میں آ گیا ہو۔
اُس نے جھٹ سے علی کو ویڈیو کال کی۔
علی تھکا ہوا تھا، مگر آنکھوں میں وہی چمک تھی۔
"یہ کیا ہے علی؟"
"یہ وہ امید ہے… جو مجھے دن بھر تھکاوٹ میں بھی مسکرانے دیتی ہے۔"
رمشا نے نظریں جھکا لیں،
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے…
لیکن چہرے پر سکون تھا۔
وقت گزرتا گیا۔
ہر مہینے پیکٹ آتا رہا،
اور ہر پیکٹ کے ساتھ محبت کا رشتہ اور گہرا ہوتا گیا۔
آخرکار دو سال بعد علی واپس آیا۔
پہلی بار جب اُس نے رمشا اور اپنے بیٹے کو ساتھ دیکھا،
تو بس اتنا کہا:
"اب کوئی پیکٹ نہیں بھیجوں گا… اب میں خود ہر دن تمہارے پاس ہوں۔"
– "فاصلے چاہے کتنے ہی لمبے ہوں، اگر دل سچے ہوں… تو محبت کبھی بٹتی نہیں، صرف بڑھتی ہے۔"