"ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں..."
حنا کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
علی مسکرا کر بولا:
"محبت کا آغاز جاننے سے نہیں، نبھانے سے ہوتا ہے۔"
یہ ارینج میریج تھی۔
نہ کوئی لمبی بات چیت، نہ کسی تصویر پر دل آنا۔
بس دو خاندان، دو رضا مندیاں… اور ایک "قبول ہے"۔
شادی کے شروع دنوں میں وہ دونوں اجنبی تھے —
ایک کمرہ، ایک رشتہ، مگر دو مختلف دنیائیں۔
علی کوشش کرتا، چھوٹے چھوٹے انداز میں —
چائے بنا کر دینا، دروازہ کھول کر رکھنا، صبح سلام کہنا…
اور حنا صرف دیکھتی، چپ چاپ۔
پہلا ہفتہ گزر گیا۔
پھر ایک دن علی نے اُسے چائے کے ساتھ ایک پرچی دی:
"محبت کا پہلا حق صرف اتنا ہے: مجھے جاننے کا موقع دو۔"
حنا ہلکا سا مسکرائی۔
شاید پہلی بار اُسے لگا، یہ بندہ سچ میں محبت کے قابل ہے۔
کچھ دن بعد، وہ خود بولی:
"مجھے بارش بہت پسند ہے…"
اور اس شام، علی اُسے چھت پر لے گیا۔
بارش ہو رہی تھی، اور علی ہاتھ میں چھتری تھامے، خود بھی بھیگ رہا تھا…
مگر حنا کو بچا رہا تھا۔
"تم کیوں بھیگ رہے ہو؟"
"تاکہ تمہیں پتا چلے — تمہارے شوق میں خود کو بھولنا کتنا خوشی دیتا ہے۔"
رفتہ رفتہ، رشتہ پنپنے لگا۔
دعاؤں میں، ہنسی میں، روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں…
محبت آہستہ آہستہ پروان چڑھنے لگی۔
پھر ایک رات، حنا نے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا:
"اب لگتا ہے، ہم محبت میں ہیں…"
علی نے جواب دیا:
"نہیں… ہم تو اُس دن سے تھے، جس دن ہم نے ایک دوسرے کو دل سے قبول کیا تھا — زبان سے نہیں، دل کی نیت سے۔"
– "محبت ہمیشہ نکاح کے بعد زیادہ خوبصورت لگتی ہے — کیونکہ اُس میں چاہت کے ساتھ برکت بھی ہوتی ہے۔"