(جو کہی نہ گئی… مگر کبھی مٹی نہیں)
شہر کے ہجوم میں، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم ہر روز دیکھتے ہیں،
اور پھر بھی اُن کے بارے میں سب کچھ جاننے کو دل چاہتا ہے۔
سعدیہ اور عریز، ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے۔
نہ کبھی ذاتی بات، نہ دوستی —
بس سلام، رسمی گفتگو، اور ایک خاموش سا احترام۔
سعدیہ ہمیشہ چپ رہتی تھی،
کام سے کام، نظریں جھکی رہتیں۔
اور عریز؟
وہ ہر وقت مسکراتا رہتا، سب سے گھل مل کر رہنے والا۔
لیکن صرف وہ جانتا تھا کہ اُس کی مسکراہٹ کا مرکز — سعدیہ تھی۔
ہر روز صبح جب وہ دفتر آتی،
وہ غیر محسوس طریقے سے اُس کے لیے دروازہ کھولتا،
کبھی چپکے سے اُس کی میز پر پسندیدہ چاکلیٹ رکھ دیتا،
اور کبھی وہ فائل جس پر وہ کام کر رہی ہوتی،
پہلے ہی مکمل کر دیتا۔
سعدیہ یہ سب محسوس کرتی تھی،
پر کبھی کچھ نہیں بولی۔
وہ جانتی تھی کہ عریز کے دل میں کچھ ہے —
لیکن شاید وہ یہ جاننا نہیں چاہتی تھی کہ کتنا۔
عریز کو امید تھی…
کہ کبھی نہ کبھی،
سعدیہ ایک بار مسکرا کر "شکریہ" کہے گی —
یا شاید صرف ایک بار اُس کی طرف دیکھے گی۔
مگر وقت گزر گیا،
مہینے سال بنے،
اور عریز نے کبھی اُس سے دل کی بات نہ کہی۔
پھر ایک دن اچانک،
سعدیہ نے استعفیٰ دے دیا۔
کسی کو کچھ نہیں بتایا،
بس چلی گئی۔
عریز کے لیے یہ خبر ایسے تھی جیسے دل پر کچھ ٹوٹ گیا ہو۔
نہ کوئی الوداع،
نہ کوئی لفظ،
نہ کوئی وضاحت۔
مہینے گزر گئے۔
عریز اب بھی وہی تھا،
بس اُس کی مسکراہٹ اب تھوڑی کمزور ہو چکی تھی۔
پھر ایک دن،
دفتر کی پرانی میلز چیک کرتے ہوئے،
اُسے سعدیہ کا ایک مسیج ملا —
جس پر کبھی اُس نے توجہ نہیں دی تھی۔
"میں جانتی ہوں… تم ہر روز میرے لیے کچھ نہ کچھ کرتے ہو۔
میں ہر چیز دیکھتی تھی…
پر جواب نہیں دے پائی۔
کیونکہ کچھ محبتیں کہنا مشکل ہوتا ہے…
بس محسوس کرنا کافی ہوتا ہے۔"
عریز کئی لمحے اُس اسکرین کو دیکھتا رہا۔
خاموش محبت…
کہی نہیں گئی،
مگر شاید کبھی ختم بھی نہ ہوئی تھی۔
"سچی محبت وہی ہوتی ہے جو کہی نہ جائے،
مگر ہر لمحہ محسوس کی جائے…"