اسلام آباد (این این آئی) وفاقی حکومت کی جانب سے واٹس ایپ طرز کی مقامی بیپ (Beep) ایپلی کیشن کی لانچنگ کا منصوبہ سیکیورٹی کلیئرنس کے باعث تاخیر کا شکار ہوگیا۔ 30 جون کی ڈیڈلائن میں صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہے، لیکن اب تک ایپ کو مکمل سیکیورٹی کلیئرنس نہیں مل سکی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس پیر کو چیئرپرسن پلوشہ خان کی صدارت میں ہوا، جس میں سیکریٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے نے ایل ڈی آئی لائسنس کی تجدید سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ دی۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ بیپ ایپلی کیشن کا سیکیورٹی آڈٹ ابھی تک جاری ہے اور نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (NITB) کو سیکیورٹی کلیئرنس کے حصول میں چیلنجز درپیش ہیں۔ علاقائی سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ایپ کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ این آئی ٹی بی نے تحریری طور پر کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایپ وفاقی سطح پر رول آؤٹ کے لیے تیار ہے اور اس کی جانچ نیشنل سائبر سیکیورٹی معیارات کے مطابق کی جا رہی ہے۔
اعلیٰ سطحی سیکیورٹی کمیٹی میں ڈی جی نیشنل سرٹ، گورننس، رسک اور کمپلائنس ڈائریکٹرز، انٹیلیجنس بیورو، این ٹی آئی ایس بی اور نادرا کے نمائندے شامل ہیں۔ بیپ کو جامع انٹرپرائز لیول سیکیورٹی اسسمنٹ سے گزارا جائے گا، جس کے مکمل ہونے کے بعد ایپ کو باضابطہ طور پر نافذ کیا جائے گا۔
ایل ڈی آئی لائسنسز سے متعلق بریفنگ میں سیکریٹری آئی ٹی نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے کیسز پی ٹی اے کو واپس بھیج دیے تھے، جن پر متعدد میٹنگز ہو چکی ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں فیصلہ متوقع ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ سات کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے اور ان پر سماعتیں مکمل ہو چکی ہیں۔
اجلاس میں ڈیپ (DEEP) پراجیکٹ، ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی، اور نیشنل ڈیجیٹل کمیشن سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کو صوبائی خودمختاری کے خلاف قرار دیا، جس پر حکام نے وضاحت دی کہ اتفاق رائے کے بغیر کچھ نافذ نہیں کیا جائے گا۔
کمیٹی نے وفاقی وزیر آئی ٹی کی غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے کہا کہ یہ تیسرا اجلاس ہے جس میں وفاقی وزیر غیر حاضر ہیں، جو سینیٹ اور کمیٹی کی توہین ہے۔ ایجنڈے کو وفاقی وزیر کی موجودگی تک ملتوی کر دیا گیا۔
کرپٹو کونسل پر بریفنگ کے دوران اراکین کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کیا۔ سیکریٹری آئی ٹی نے بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری سے کرپٹو کونسل قائم کی گئی اور وزارت خزانہ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اراکین نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمان سے اس کی منظوری لی گئی؟ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے تبصرہ کیا: "بچے پہلے ہوگئے، شادی بعد میں ہوگی"، جس پر کمیٹی میں قہقہے لگے۔
چیئرپرسن نے مطالبہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں وزارت قانون اور وزارت خزانہ کے حکام کرپٹو کونسل پر بریفنگ دیں۔ "ذہانت اے آئی" سے متعلق وضاحت میں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ وزارت آئی ٹی کا نہیں ہے۔ چیئرپرسن نے کہا کہ وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ پاکستان کا پہلا چیٹ جی پی ٹی ہے، بعد ازاں اس کی تردید کی گئی، لیکن وزارت کے حکام نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
آئی ٹی برآمدات پر بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ اس مالی سال کے آخر تک برآمدات 3.8 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ آئندہ سال 5.2 ارب ڈالر کا ہدف رکھا گیا ہے۔ انٹرنیٹ بندش سے متعلق چیئرپرسن نے خدشات ظاہر کیے، جس پر سیکریٹری نے کہا کہ اس بار نقصان کم ہوا ہے۔
ڈیجیٹل فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کانفرنس میں مختلف ممالک نے شرکت کی اور اربوں ڈالر کے ایم او یوز پر دستخط کیے گئے۔ اجلاس میں سوشل میڈیا پر ریاست مخالف مواد سے متعلق پی ٹی اے کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ روزانہ 300 شکایات موصول ہوتی ہیں، جبکہ گزشتہ 5 ماہ میں 45,000 سے زائد شکایات آئی ہیں، جن میں یوٹیوب 90 فیصد، ٹک ٹاک 76 فیصد اور فیس بک 72 فیصد شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مخالف مواد پر کارروائی کی جاتی ہے، لیکن سوشل میڈیا کمپنیاں سیاسی مواد کو ہٹانے سے انکار کرتی ہیں۔
اجلاس میں سینیٹرز نے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں، تاکہ ریاستی قوانین کا موثر نفاذ ممکن ہو۔