اسلام آباد (این این آئی) — سینیٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے اہم قانون منظور کر لیا۔ یہ بل سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا، جس میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ جمعیت علما اسلام (ف) نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
منظور شدہ بل کے مطابق، نکاح خواں کسی ایسے نکاح کا انعقاد نہیں کر سکے گا جس میں دلہا یا دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہو۔ نکاح خواں اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ نکاح کے وقت دونوں فریقین کے شناختی کارڈ پر درج تاریخِ پیدائش کو چیک کرے۔
بل میں درج سزاؤں کے مطابق:
-
خلاف ورزی پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
-
18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرنے والے مرد کو 3 سال قیدِ با مشقت کی سزا دی جائے گی۔
-
18 سال سے کم عمر کے ساتھ ازدواجی تعلق کو بچوں سے زیادتی تصور کیا جائے گا۔
-
کم عمر بچوں کی شادی پر مجبور کرنے والے شخص کو 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
-
بچوں کی شادی کے ارادے سے انسانی اسمگلنگ (ٹریفکنگ) کرنے پر بھی 7 سال قید اور جرمانہ ہوگا۔
-
کم عمر شادی میں معاونت کرنے والے کو 3 سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
-
والدین یا سرپرست اگر شادی ہونے سے نہ روک سکیں تو انہیں بھی 3 سال قیدِ با مشقت اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
بل کے مطابق، یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا اور عدالت ایسے کیسز کی کارروائی 90 دن کے اندر مکمل کرے گی۔ اگر عدالت کو کسی کم عمر شادی کی اطلاع دی جائے تو وہ فوری طور پر اس کے انسداد کے لیے احکامات جاری کرے گی، اور اطلاع دینے والے فرد کی شناخت خفیہ رکھی جائے گی۔