✉️ "خط جو کبھی بھیجا نہ گیا"

Express Zameen

ایک ادھوری محبت… جو برسوں بعد خط کے ذریعے جاگی)

بارش کی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
نینا اپنی نانی اماں کے پرانے صندوق کی صفائی کر رہی تھی۔
کتابیں، پرانی چادریں، اور ایک لکڑی کا باکس…
سب چیزوں میں وقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔

اسی باکس میں اُسے ایک نیلے رنگ کا پرانا لفافہ ملا،
جس پر گرد تو بہت تھی،
مگر خط کی سطر پر لکھا تھا:

"برائے احمد… جو کبھی لوٹ کر نہ آیا"

نینا کا دل دھڑک اٹھا۔
خط کھولا —
تحریر نانی اماں کی تھی…
لیکن الفاظ محبت میں بھیگے ہوئے تھے۔

"احمد،
تم جب چلے گئے، میں کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
تمہیں روکنا چاہا، مگر لبوں پر خاموشی جم گئی۔
مجھے خبر ملی کہ تم شادی کے لیے دبئی جا رہے ہو…
اور میں نے صرف ایک دعا کی — کہ تم خوش رہو۔
مگر دل نے ہمیشہ ایک امید رکھی،
کہ شاید ایک دن تم پلٹ آؤ۔

یہ خط تمہیں کبھی دیا نہیں…
شاید ہمت نہ ہوئی۔

اگر تم کبھی واپس آؤ،
اور میری آنکھیں بند ہو چکی ہوں،
تو جان لینا —
میں نے تم سے بے پناہ محبت کی،
اور مرتے دم تک تمہاری واپسی کا انتظار کیا۔

فقط تمہاری،
ہاجرہ"

نینا کی آنکھیں بھر آئیں۔
نانی اماں تو تین ماہ قبل دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں،
مگر یہ خط اُن کی محبت کی آخری گواہی تھا۔

نینا کو اچانک یاد آیا —
محلے کی پرانی لائبریری میں ایک بزرگ اکثر آیا کرتے تھے…
جن کا نام احمد تھا۔

وہ دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی۔

احمد صاحب ایک کونے میں بیٹھے،
پرانی اردو شاعری کی کتاب پڑھ رہے تھے۔

نینا نے ہچکچاتے ہوئے کہا:
"کیا آپ نانی ہاجرہ کو جانتے تھے؟"

احمد صاحب چونک گئے…
پھر آہستہ سے بولے:
"وہ میرا پہلا اور آخری خواب تھیں۔
لیکن میں وقت پر لوٹ نہیں سکا…"

نینا نے کانپتے ہاتھوں سے خط آگے بڑھایا۔

خط پڑھتے ہی احمد صاحب کی آنکھیں بھر آئیں۔
وہ بہت دیر خاموش رہے،
پھر دھیرے سے بولے:

"مجھے لگا، وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی۔
مگر یہ خط…
یہ تو محبت کی آخری سچائی ہے۔"

نینا نے مسکرا کر کہا:
"شاید کچھ محبتیں جسمانی طور پر پوری نہ ہوں،
مگر روح میں وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔"

"خط جو کبھی بھیجا نہ گیا —
وہ برسوں بعد بھی دل تک پہنچ سکتا ہے…"

 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !