مکوآنہ (این این آئی) — بیس سالہ عظمیٰ، جو چند برس پہلے تک مکمل صحت مند تھیں، آج ایک نایاب جینیاتی بیماری بیکر مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہو چکی ہیں، جس کے باعث ان کے پٹھے کمزور ہو رہے ہیں اور ان کا نظامِ تنفس بھی متاثر ہو رہا ہے۔ یہ بیماری ان کے جسمانی اعضا کو مسلسل دباؤ میں رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
عظمیٰ کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ان کی چھوٹی بہن میں بھی اسی بیماری کی ابتدائی اور پوشیدہ علامات موجود ہیں، جو کسی بھی وقت ظاہری طور پر ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ان کے خاندان میں کئی نسلوں سے قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادیاں (کزن میریجز) ہوتی رہی ہیں، جو اس بیماری کے ممکنہ اسباب میں شامل ہیں۔
تحقیقات کے مطابق پاکستان میں قریبی رشتوں میں شادیوں کی شرح کم از کم 63 فیصد ہے، یعنی ہر دوسری شادی کزن میریج ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی شادیوں کی وجہ سے جینیاتی امراض کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، اور بعض بیماریاں تو ایسی ہیں جو دنیا میں صرف پاکستان میں پائی گئی ہیں۔
مارچ 2024 میں جرنل Infection, Genetics and Evolution میں شائع ایک تحقیق کے مطابق "IL12R1" نامی جین میں ہونے والی تبدیلیاں متاثرہ شخص کو بار بار ٹی بی (تپ دق) کا شکار بنا سکتی ہیں۔ یہ جینیاتی خرابی اکثر والدین سے وراثت میں ملتی ہے، جو کزن میرج کی وجہ سے اور زیادہ فعال ہو جاتی ہے۔
رپورٹ میں کئی پاکستانیوں نے اعتراف کیا کہ ان کے خاندانوں میں کزن شادیاں عام ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل میاں کلی اس حوالے سے خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جہاں صدیوں سے صرف دو قبائل آپس میں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر شادیاں کرتے آ رہے ہیں۔ اس علاقے میں 350 سے 400 دیہات ہیں، اور ہر تیسرے گھر میں کم از کم ایک بچہ پیدائشی نقائص کا شکار ہے۔
ان نقائص میں دماغی بیماریاں، تھیلسیمیا، سماعت و گویائی کے مسائل، جسمانی بگاڑ، سیریبرل پالسی اور مکمل نابینا پن جیسی سنگین حالتیں شامل ہیں، جن کی بنیادی وجہ قریبی رشتہ داروں کے درمیان مسلسل شادیاں قرار دی جا رہی ہیں۔