برطانیہ میں پناہ کی درخواستوں میں پاکستانی شہری سب سے آگے، افغان اور شامی شہری دوسرے اور تیسرے نمبر پر
اسلام آباد (این این آئی) – برطانیہ کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے دوران پاکستانی شہریوں نے سب سے زیادہ تعداد میں برطانیہ میں پناہ کی درخواستیں دائر کیں۔ اس عرصے کے دوران کل 11,048 پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں، جو کہ مجموعی پناہ کی درخواستوں کا 10.1 فیصد بنتی ہیں۔
یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں واضح اضافہ ظاہر کرتی ہے، جب پاکستانی درخواست دہندگان تیسرے نمبر پر تھے۔ ٹروتھ انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، اس سال پاکستان نے ان ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو پہلے روایتی طور پر سر فہرست رہے ہیں۔
برطانیہ میں مارچ 2025 تک پناہ کی مجموعی درخواستیں بڑھ کر 1,09,343 تک پہنچ گئیں، جو کہ 2001 سے اب تک کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی 93,150 درخواستوں کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2023-24 میں پاکستانیوں کی جانب سے 7,003 درخواستیں دی گئی تھیں، جو کل کا 7.5 فیصد تھیں۔
پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر افغان شہری رہے، جنہوں نے 8,069 پناہ کی درخواستیں جمع کروائیں، جو کہ گزشتہ سال کی 9,738 درخواستوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ شامی شہری تیسرے نمبر پر رہے جن کی درخواستوں کی تعداد 6,175 رہی، جو گزشتہ برس 4,232 تھیں۔
رپورٹ کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کی ایک بڑی تعداد، یعنی 33 فیصد، کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ پہنچی، جس سے برطانیہ کو درپیش غیر قانونی ہجرت کے چیلنج کی شدت ظاہر ہوتی ہے۔
اگرچہ درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن زیر التوا کیسز میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مارچ 2025 تک ابتدائی فیصلے کے منتظر افراد کی تعداد 1,09,536 رہی، جو کہ دسمبر 2024 کے 1,24,802 کے مقابلے میں 12 فیصد کمی ہے۔ یہ دسمبر 2021 کے بعد سے سب سے کم زیر التوا کیسز ہیں۔
اس کے ساتھ ہی جبری ملک بدری کی شرح میں بھی معمولی کمی دیکھی گئی۔ جنوری سے مارچ 2025 کے دوران 2,312 افراد کو ملک بدر کیا گیا، جبکہ 2024 کی آخری سہ ماہی میں یہ تعداد 2,365 تھی، تاہم دونوں اعداد و شمار 2018 کے بعد کسی بھی سہ ماہی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
برطانوی وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے کہا کہ حکومت امیگریشن کے نفاذ کو مزید مضبوط بنانے پر کام کر رہی ہے، اور غیر قانونی رہائش پذیر افراد کی فوری ملک بدری کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ آنے والے امیگریشن اصلاحاتی وائٹ پیپر میں مزید سخت اقدامات شامل ہوں گے۔

