"محترم چور صاحب، آپ عیش کریں!"
دو ماہ قبل تین مارچ کو ہمارے سکول میں ایک چوری ہوئی تھی، جس کی تفصیلات میں نے 27 مارچ کو اپنے کالم "فنگر پرنٹس کی کہانی" میں بیان کی تھیں۔ اس میں میں نے پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے درمیان رابطوں کی کمی کو اجاگر کیا تھا، خاص طور پر فنگر پرنٹس ڈیٹا کے حوالے سے، جو نادرا کے ریکارڈ میں موجود ہوتا ہے۔
پولیس اور نادرا کے درمیان سات سمندر کی دوری ہے۔ جب پولیس فنگر پرنٹس جمع کرتی ہے، تو وہ یہ فائلیں ڈی پی او آفس بھیج دیتی ہے، جہاں سے یہ لاہور کے فنگر پرنٹس بیورو کو منتقل ہوتی ہیں۔ یہاں ایک ڈیٹا بیس میں 18 لاکھ مجرموں کے فنگر پرنٹس موجود ہیں، جن سے میچ کرنے کے بعد ہی کسی مجرم کا پتہ چلتا ہے۔ اگر یہ میچ نہ ہو، تو فنگر پرنٹس وزارت داخلہ بھیجے جاتے ہیں، اور وہاں سے یہ پورا سفر نادرا تک پہنچتا ہے۔
یہ عمل نہایت سست اور پیچیدہ ہوتا ہے، اور اگر اس دوران کسی افسر کی چھٹی ہو جائے یا کوئی اور رکاوٹ آ جائے، تو فائل سسٹم میں گم ہو جاتی ہے اور مجرم دوسرے صوبے یا بیرون ملک فرار ہو جاتا ہے۔ ہمارے سکول کے چور کے فنگر پرنٹس پورا مہینہ سسٹم میں پڑے رہے، جس کے بعد مجبوراً مجھے وزارت داخلہ سے رابطہ کرنا پڑا۔ بالآخر نادرا نے فنگر پرنٹس کی تصدیق کی، اور ہم نے ان کا میچ کر کے چور کا پتہ لگایا۔
لیکن، جیسے ہی ہم نے ملزم کو گرفتار کیا، ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔ پولیس کی تفتیش میں یہ ملزم بے گناہ نکلا، حالانکہ اس کے فنگر پرنٹس واردات کی جگہ سے ملے تھے۔ اس کے بعد مزید تفتیشی ذرائع جیسے جیو فینسنگ اور پولی گرافک ٹیسٹ باقی رہ گئے۔
یہ عمل بھی پیچیدہ تھا۔ جیو فینسنگ کا ڈیٹا صرف آئی بی اور آئی ایس آئی کے پاس ہوتا ہے، جس کے لیے ایک طویل پروسیس ہوتا ہے۔ میرے کیس میں یہ ڈیٹا پورا مہینہ آئی بی میں پڑا رہا، اور جب بالآخر دستیاب ہوا، تو وہ بھی ناکارہ ثابت ہوا، کیونکہ ملزم نے انٹرنیٹ استعمال نہیں کیا تھا۔ اسی طرح پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے تاریخ ملی، اور اس کے بعد رپورٹ حاصل کرنے میں مزید وقت لگا۔
اس سسٹم کا سست روی، پیچیدگی، اور نقصانات نے ثابت کیا کہ ہمارے ملک کا نظام ملزم کو سپورٹ کرتا ہے، نہ کہ مظلوم کو۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اسی وجہ سے ہے کہ مجرموں کو یہ یقین ہے کہ پولیس ان تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اور اگر وہ پکڑے بھی جائیں، تو سسٹم میں اتنی پیچیدگیاں ہیں کہ اکثر وہ بچ نکلتے ہیں۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارا سسٹم مظلوم کی مدد نہیں کرتا بلکہ ملزم کے حق میں کام کرتا ہے۔ پولیس، فرانزک ایجنسیاں، اور دیگر محکمے الگ الگ ہیں، اور ان کے درمیان کوئی مربوط رابطہ نہیں ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے منسلک نہیں، بلکہ الگ الگ ہیں، اور اس کا فائدہ مجرموں کو ہوتا ہے۔
آخرکار، میں نے اپنے کیس کا پیچھا چھوڑ دیا۔ پولیس چور کو نہیں پکڑ سکی، اور میں نے اس کا چہرہ دیکھنے کی امید چھوڑ دی۔ اب میری درخواست ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اپنا سسٹم بہتر کریں تاکہ جرائم کی شرح کم ہو، اور لوگوں کو انصاف مل سکے۔
محترم چور صاحب! آپ اب عیش کریں، کیونکہ سسٹم نے آپ کو بچا لیا ہے۔