ساحل کی نرم ریت پر بیٹھا، اذان دور آسمان کو تکتا رہا۔
لہروں کی آواز میں کچھ خاص تھا آج — جیسے کوئی پرانی یاد دستک دے رہی ہو۔
سات سال ہو چکے تھے،
اسی ساحل پر،
اسی شام کے وقت،
جب وہ اور حنا پہلی بار ملے تھے۔
یونیورسٹی کے آخری دنوں میں ہونے والی ایک فیلڈ ٹرپ تھی۔
بےفکری، ہنسی مذاق، اور بہت سی تصویریں۔
اذان اور حنا کی دوستی وہیں سے شروع ہوئی،
دونوں کتابوں اور خاموشی کے شوقین۔
دنوں میں بات چیت بڑھی،
اور دلوں میں وہ انجانی سی کشش پنپنے لگی —
جسے شاید وہ دونوں سمجھتے تھے،
مگر کہہ نہ سکے۔
جب ٹرپ ختم ہوا،
تو رابطہ کچھ دن رہا،
پھر وقت اور مصروفیات کی گرد سب پر چھا گئی۔
اذان نے کئی بار سوچا:
"کہیں سے نمبر مل جائے…
کہیں وہ خود رابطہ کرے…"
لیکن زندگی نے ہر بار اُسے روک دیا۔
سال گزرتے گئے۔
اذان ایک کامیاب گرافک ڈیزائنر بن چکا تھا۔
زندگی ظاہراً مکمل لگتی تھی —
لیکن اندر کہیں،
ایک ادھورا پن موجود تھا۔
اور آج…
اسی ساحل پر،
جب وہ اپنے خیالوں میں گم تھا،
اچانک پیچھے سے ایک مانوس آواز آئی:
"اذان؟"
وہ پلٹا —
اور وقت جیسے تھم گیا۔
سامنے حنا کھڑی تھی۔
وہی چہرہ، وہی آنکھیں،
بس ان میں اب تھوڑی تھکن اور کچھ ان کہی باتیں تھیں۔
"حنا…؟" اذان نے آہستہ سے کہا۔
"ہاں، میں…" وہ تھوڑا جھجکی۔
"یہاں آئی تھی کچھ وقت گزارنے، اور دل نے کہا کہ تم بھی یہیں ہو سکتے ہو۔"
کچھ لمحے خاموش گزرے۔
اذان نے نظریں جھکا کر کہا:
"کاش میں اُس وقت کچھ کہہ دیتا…"
حنا مسکرائی:
"میں بھی یہی سوچتی رہی سات سال تک…"
"اب دیر تو نہیں ہو گئی؟"
"نہیں اذان، اگر جذبہ سچا ہو… تو وقت کبھی دیر نہیں کرتا۔"
اُسی لمحے،
لہروں نے پھر شور مچایا،
ہوا نے آہستگی سے حنا کا دوپٹہ لہرا دیا،
اور اُن کے دل…
پھر سے دھڑکنے لگے —
ایک نئی امید کے ساتھ۔
– "کچھ محبتیں وقت کے انتظار میں چھپ جاتی ہیں،
مگر وقت جب مڑ کر آتا ہے…
تو وہی محبت سب کچھ بدل دیتی ہے۔"